زخمِ امید بھر گیا کب کا

زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
ناصحو میں سدھر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان مر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا

میرا فہرست سے نکال دو نام
میں تو خود سے مُکر گیا کب کا

Posted By – یاور ماجد http://yawarmaajed.wordpress.com


تبصرہ کریں