ہر خراشِ نفس ، لکھے جاؤں

ہر خراشِ نفس ، لکھے جاؤں
بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں

ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
روشنی کے برس لکھے جاؤں

اُن بسی بستیوں کا سارا لکھا
ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں

مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں

ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں

ہیں خس و خارِ دید ، رنگ کے رنگ
رنگ پر خارو خس لکھے جاؤں

Posted By – یاور ماجد http://yawarmaajed.wordpress.com


تبصرہ کریں