مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے

مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے
باقی کو کیا کرنا ہے

شہر ہے چہروں کی تمثیل
سب کا رنگ اترنا ہے

وقت ہے وہ ناٹک جس میں
سب کو ڈرا کر ڈرنا ہے

میرے نقشِ ثانی کو
مجھ میں ہی سے اُبھرنا ہے

کیسی تلافی کیا تدبیر
کرنا ہے اور بھرنا ہے

جو نہیں گزرا ہے اب تک
وہ لمحہ تو گزرنا ہے

اپنے گماں کا رنگ تھا میں
اب یہ رنگ بکھرنا ہے

ہم دو پائے ہیں سو ہمیں
میز پہ جا کر چرنا ہے

چاہے ہم کچھ بھی کر لیں
ہم ایسوں کو سُدھرنا ہے

ہم تم ہیں اک لمحہ کے
پھر بھی وعدہ کرنا ہے

Posted By – یاور ماجد http://yawarmaajed.wordpress.com


تبصرہ کریں